اسلام میں اَحادیثِ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کو مصدر ثانی کی اساسی حیثیت
حاصل ہے،جس میں نقب زنی سے حفاظت کا انتظام عہد رسالت کی ابتداء
ہی سے کر دیا گیا تھا،اور یہ صیانت و حفاظت آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا نتیجہ تھی:
”مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْیَتَبَوَّأ مَقْعَدَہ
مِنَ النَّارِ“․(۱)
ترجمہ:”جس نے مجھ پر جھوٹ بولا، وہ اپنا
ٹھکانہ جہنم میں بنا لے“۔
جاں نثار صحابہ آپ صلّی الله علیہ وسلّم کے اس ارشاد سے ہر دَم
خوفزدہ رہتے تھے اور آپ صلّی الله علیہ وسلّم کا یہ دستور، ہمہ
وقت اُن کی نگاہوں کے سامنے رہتا تھا،صحابہ کی اسی کیفیت
کوعلامہ جلال الدین سیوطی نے اِن لفظوں میں بیان کیا ہے :
”سید الکونین صلی اللہ
علیہ وسلم کا یہ فرمان، محافل صحابہ میں اتنی شہرت اختیار کر گیا تھا کہ آج
بھی کتبِ حدیث میں سو سے زائد ایسے صحابہ رضی اللہ
عنہم کے نام محفوظ ہیں،جن سے یہ روایت منقول ہے“۔(۲)
اگراِن تمام طُرق اور روایات کو
بنظر غائردیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کا یہ فرمان ہمہ گیری میں اپنی نظیر نہیں
رکھتا،کیونکہ جہاں اِبتدائے نبوت کی خفیہ مجالس میں اِس
حدیث کی سرگوشیاں تھی،وہاں اِکمال نبوت یعنی
خطبہ حجة الوداع کے عظیم اجتماع میں بھی اسی اعلان کی
گونج تھی،جہاں عشرہ مبشّرہ اس روایت کو نقل کر رہے ہیں، وہاں
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے عام وخاص بھی اس کو دُہرا رہے
تھے،صحابہ رضی اللہ عنہم میں جس طرح یہ ارشاد زبان زَد خاص و
عام تھا، صحابیات رضی اللہ عنہن کی مجالس بھی اس فرمان سے
مزیّن تھیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی
ارشاد کا اثر تھا کہ جب ذخیرہٴ اَحادیث میں من گھڑت اور
ساقط الاعتبار روایات کے ذریعے رَخنہ اندازی کی مذموم
کوششیں شروع ہو گئیں، تو محدثینِ کرام نے احادیث کے صحت و
سُقَم کے مابین ”اِسناد“ کی ایسی خلیج قائم کر دی،جس
کی مثال اُممِ سابقہ میں ملنا مُحال ہے،محدثینِ کرام نے احادیث
کو خس وخاشاک سے صاف کرنے کے لیے یہی ”میزانِ اِسناد“
قائم کی، جس کے نتیجے میں اصولِ حدیث کے مبارک علوم وجود
میں آتے رہے، ضعیف اور کذّاب راویوں پر مستقل تصانیف کی
گئیں،انہی متقدمین علماء نے کتب العِلَل میں ساقط
الاعتبار(غیر معتبر) احادیث کو واضح کیا، علماء متأخرین
نے بھی باقاعدہ مُشتَہَرات (زبان زَد عام روایات پر مشتمل کتابیں)،
ساقط الاعتبار اور من گھڑت روایات پر کتابیں لکھیں؛چنانچہ ہر
زمانے میں احادیث کا ذخیرہ محفوظ شاہراہ پر گامزن رہا، غرضے کہ
روئے زمین پر جہاں کہیں اسلام کا سورج طلوع ہوا ہے،وہ حدیث کے
محافظین خودساتھ لایا ہے۔
ہندوپاک میں ساقط الاعتبار اور من گھڑت روایات اور اُن کا سدّباب
اگر ہم اپنے خطّے برّصغیرہندوپاک کا
جائزہ لیں،تو موضوعات کی روک تھام میں سرفہرست علامہ ابو الفضل
الحسن بن محمد صاغانی لاہوری کا نام نظر آتا ہے، آپ ۵۷۷ھ لاہور (پاکستان) میں
پیدا ہوئے،اور حدیث و لغت کی دیگر خدمات کے ساتھ، خود
ساخطہ روایات پر دو گراں قدر کتابیں لکھی:
۱-
الدُرَرُ المُلْتَقَط في تَبْیَینِ الغَلَط
۲-
موضوعات الصَّغَانِي
من گھڑت اور غیر معتبر روایات کے بنیادی عوامل
ہندوپاک میں َمن گھڑت اور باطل روایات
کا مطالعہ بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے،جن میں یہ نکتہ بڑی
اہمیت کا حامل ہے کہ برّصغیر ہندوپاک میں وہ کونسے قدیم
بنیادی طبقات ہیں،جو یہاں خود ساختہ روایات کی
ترویج میں راہ ہموار کرتے رہے ہیں؟اس سوال کے جواب میں سب
سے قدیم تحریر علامہ صاغانی ہی کی ملتی ہے، جس سے ہمیں بڑی حد
تک اس مسئلے کے جواب میں رہنمائی ملتی ہے، چنانچہ علامہ صاغانی
”الدُّررُ المُلْتقَط“(۳) میں اپنی تصنیف کی غرض و
غایت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”وقد
کَثُرَتْ في زَمَانِنا الأحادیث الموضوعةُ، یروِیھا القصاصُ علی
رُوٴوس المَنَابِر والمجالسِ، ویَذْکُرُ الفُقَرَاءُ والفُقَھَاءُ في
الخَوَانِقِ والمَدَارِسِ، وتَدَاوَلَتْ في المَحَافِل، واشْتُھِرَتْ في
القَبَائِل، لِقِلَّة مَعْرِفَةِ النَّاس بعِلْمِ السُنَنِ، وانْحِرَافِھم عن
السُّنَنِ“․
اس عبارت میں امام صاغانی نے موضوعات اور غیر معتبر روایات کی اِشاعت میں
مُلوَّث چند عوامل کا ذکر کیا ہے،ملاحظہ ہو:
$
قصہ گَو برسرِ منبر اورعام مجالس میں من گھڑت روایتیں بیان
کرتے تھے،ایسے ہی جاہل صوفیاء اور جاہل فقہاء کی مجالس بھی
ان باطل مرویّات سے پُر تھیں۔
$ اس
کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ یہ خود ساختہ عبارتیں
ملّت اسلامیہ کے ہر طبقے اور قبیلے میں رواج پاتی رہیں،
اور یہی کلام، مجالس کی زینت بنتا رہا،بالآخر موضوعات کی
یہ گرم بازاری پورے معاشرے میں سرایت کر گئی۔
$
اس شرعی اِنحطاط کا باعث صرف معرفتِ حدیث سے دوری تھی۔
وضّاعین کی اقسام اور ان کے مذموم مقاصد
علامہ صاغانی کا گزشتہ اِقتباس ہماری قدیم خستہ حالی کی
جیتی جاگتی تصویر ہے، جس میں مذکورطبقات ہمارے
سابقہ سوال کا اجمالی جواب ہیں،مزید وضاحت کے لیے ہم
علامہ عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ کے اس مقدمے (۴)کو بہت ہی
معاون پاتے ہیں،جس میں انھوں نے حدیث گھڑنے والوں کی
اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے، انھیں کئی اقسام پر تقسیم کیا،اِن
اقسام سے ہم بخوبی یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ برصغیر
ہندوپاک میں وہ کونسے حلقے،اَفراد اور گروہ ہیں،جن کے ہاں موضوع روایات
کا ایک بڑا ذخیرہ جنم لیتا رہا ہے،بالفاظ دیگر یہ
روایات انھیں کے راستے سے مشہور ہوئیں۔
۱-زَنادِقہ
زَنادِقَہ،ان کا مقصد اُمت میں رطب
ویابس پھیلا کر شریعت کو مسخ کرنا ہے،علامہ عبدا لحی
لکھنوی نے اس عنوان کے تحت
ہندوپاک کے ”فرقہٴ نیچریہ“ اور اُن کے گمراہ کُن عقائد کا ذکر کیا
ہے، آپ نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ یہ فرقہ نصوصِ شرعیہ
میں تحریف(تبدیلی) لفظی ومعنوی کا مرتکب رہا
ہے۔
۲-موٴیدینِ مذاہب
دوسری قسم اُن افراد کی
ہے،جنہوں نے اپنے مذہب اور موقف کی تائید میں روایتیں
گھڑیں،اِس عنوان کے تحت علامہ عبد الحی لکھنوی نے حدیث میں
خوارج کے طریقہٴ واردات کو بیان کیا ہے، تاریخ شاہد
ہے کہ بعض خوارج نے خود اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ہم نے اپنے موقف اور رائے
کو ثابت کرنے کے لیے بہت سی احادیث گھڑی ہیں ۔
یہاں برّصغیر ہندوپاک میں
موجود اہل سوء اور بدعتیوں کا ذکر بھی برمحل ہے،جنہوں نے اس خطّے میں
بہت سی مُحدَثَات(دین میں نئی باتیں) اور بدعات کو
سند جواز فراہم کیا، اور اپنی اِختراعات کے ثبوت میں، من گھڑت
اورساقط الاعتبار روایتوں کا سہارا لیا۔
۳-اصلاح پسند اَفراد
تیسرا طبقہ اُن افراد کا ہے،جنہوں
نے لوگوں کی اصلاح کے خیال سے ترغیب وترہیب کی احادیث
گھڑیں۔اس میں علامہ عبدالحی لکھنوی نے ایک دلچسپ
مثال بیان کی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ ہندوپاک کے بعض اصلاح پسند
لوگوں نے تمباکو نوشی سے زَجرووَعِید پر مشتمل احادیث وضع کی
ہیں،پھر موصوف نے اس مضمون پر مشتمل وضّاعین کی آٹھ ایسی
روایتیں لکھی ہیں، جو سب کی سب جعلی ہیں۔
۴-طبقہٴ جہلاء
چوتھی قسم اُن لوگوں کی ہے جو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب ہر اَمرِخیر،اقوال
زَرِیں وغیرہ کا انتساب، جائز سمجھتے ہیں؛حالانکہ معتبر سند کے
بغیر اس طرح انتساب کرنا ہر گز جائز نہیں۔
۵-اہل غلو
ایک قسم اُن لوگوں کی ہے،جو
عقیدت ومحبت میں اِفراط وغُلُوّ کا شکار ہوجاتے ہیں،اور اہل بیت،
خلفائے راشدین،ائمہ کرام اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے
حوالے سے باطل،بے اصل مضامین مشہور کردیتے ہیں۔
۶-واعظین
چھٹا طبقہ ان قصہ گَو واعظین کا ہے
جو جعلی غرائبِ زمانہ سُنا کر عوام سے دادِ تحسین وُصول کرتے ہیں۔
خلاصہ کلام
خلاصہ کلام یہ کہ یہی
طبقات اور اَفراد، خطہٴ ہند وپاک میں حدیث کی جعل سازی
کا بیڑا اٹھائے رہے ہیں؛بلکہ اس تفصیل کے بعد ہم بصیرت سے
یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے گرد و پیش ایسی
بہت سی ہم معنی باطل احادیث پھیلی ہوئی ہیں،جو
بلا تردّدانھیں خاص طبقات کی مذموم کوششوں کانتیحہ ہے۔
ہندوپاک میں تکاسلِ حدیث اور اس کے اسباب
اگرچہ برصغیر پاک و ہند میں
زبان زَدْ عام رِوایات کی تنقیح بجا طور پر ہوتی رہی
ہے،لیکن پھر بھی یہ سوال، جواب کا مستحق ہے کہ افرادِ اُمت عام
طورپراحادیث میں صرف سطحی ذہن رکھنے والے ہیں،اور اکثر
احادیث کی چھان بین کو خاطر میں نہیں لایا
جاتا، آخر، حدیث کے عنوان سے مزاجوں میں حسّاسیت اتنی
مَدھم کیوں رہی ہے؟
تلاشِ بسیار کے بعد علامہ عبدالغزیز
فرہاروی (۱۲۳۹
ھ) کی عبارت میں اس مُعِمّہ کا حل مل گیا۔علامہ عبد العزیز
فرہاروی نے ”کوثر
النَّبِیّ وزُلَالُ حَوْضِہ الرَّوِي“(۵)میں ایک مقام پر بعض
ایسی کتبِ تفسیر،کتب ِزہد،کتب ِ اَورَاد وغیرہ کا تذکرہ کیا،جن
میں غیر مُعتبر احادیث بھی ہیں،پھر اِن کتابوں میں
موجود ساقط الاعتبار احادیث کے اسباب ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”والسَّبَبُ
أنّہ قَلَّ اشْتِغَالُھم بِصنَاعَةِ الحَدِیث، وأنّھم اعْتَمَدُ وا علی
المشھورفي الألْسِنَة مِنْ تَحْسِیْنِ الظَّنّ بالمُسْلِم وأنَّھم
انْخَدَعُوا بالکُتُب الغَیرِ المُنَقَّحَةِ الحَاوِیَةِ لِلرَّطْبِ
والیَابِسِ،وأنَّہ لم یَبْلُغْھُم وَعِیدُ التَّھَاوُنِ في روایةِ
الحَدِیثِ، وأیضاً منھم مَنْ یَعْتَمِدُ علی کُلِّ ما
أسْنِدَ مِنْ غَیرِ قَدْحٍ وتَعْدِیلٍ في الرُّوَاة“․
”(اِن کتب میں رطب ویابِس
احادیث کی )وجہ یہ ہے کہ ان کتابوں کے مصنّفین فنِ حدیث
سے کم اِشتغال رکھتے ہیں،اور مسلمان سے حسن ظن رکھتے ہوئے،زبان زَد عام روایتوں
پر بھروسہ کر لیتے ہیں(حا لانکہ ایسا اعتماد صرف ماہرِ فن پر ہی
کیا جا سکتا ہے،نہ کہ حدیث میں کم اشتغال رکھنے والے پر)اور یہ
مصنّفین رطب ویابس پر مشتمل، غیر منقّح کتابوں سے دھوکے میں
پڑ جاتے ہیں،اور(ان کے بارے میں یہی حسنِ ظن ہے کہ) ان
مصنّفین کو حدیث نقل کرنے میں تہاون(حقیر سمجھنا) کی
وعید نہیں پہنچی ہوگی،اور بعض مصنّفین سند کے راویوں
کی جرح وقدح دیکھے بغیر، ہر سند والی روایت پر
اعتمادکر لیتے ہیں“۔
اسبابِ تکاسل کا جائزہ
دراصل علامہ عبدالعزیز فرہاروی نے جن کتبِ حدیث
و تفسیر وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے،یہ کتب برصغیر میں
مُتَدَاول اور مُرَوّج ہیں اور ان کتابوں کے موٴلفین کی
جلالت اور علوّ شان بلا شبہ مُسَلَّم ہے؛ لیکن اس حقیقت کا انکار نہیں
کیا جا سکتا کہ اِن موٴلفین کافنِ حدیث میں اشتغال
ناقص رہا ہے؛چنانچہ صاحبِ کتاب کی یہ کمزوری عوام میں بھی
سرایت کرتی رہی اور احادیثِ موضوعہ معاشرے میں پھیلتی
رہیں، بہرحال ذَیل میں ہم مولانا عبد العزیز فرہاروی کے بیان کردہ
نِکات اور ان سے ماخوذ نتائج کا جائزہ لیتے ہیں۔
فنّ حدیث میں اشتغال کی کمی
ان مصنّفین کی تالیفات
میں رَطب و یابس روایات کی ایک وجہ یہ ہے کہ
ان موٴلفین نے علومِ حدیث سے ایسا اشتغال نہیں
رکھا،جس سے ان میں اُصولِ حدیث کے مطابق،حدیث کے ردّو قبول کا
مَلَکَہ اور اسے پرکھنے کی قابلیت پیدا ہو جاتی،حتی
کہ ہمارے زمانے میں بھی مُعتَد بہ تالیفات اس بات کی مقتضی
ہیں کہ ان کے موٴلفین احادیث کے معاملے میں محض تحویل(حوالہ
دینا) پر اکتفا نہ کریں؛ بلکہ حسبِ ضرورت اس بات کا پورا اطمینان
حاصل کریں کہ یہ حدیث، معتبر سند سے ثابت ہے۔
محض حسنِ ظن کی بناء پر، روایات پر اعتماد
ان کتابوں میں باطل اور بے اصل روایتوں
کے شُیوع کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ مصنّفین
ہر مسلم کے بارے میں حسنِ ظن رکھتے تھے،اور زبان زَد عام روایتوں کو
حسنِ ظن کی بناء پر بلا تحقیق قبول کر لیتے تھے۔
واضح رہے کہ اس مقام پر مولانا عبد الحی
لکھنوی نے لکھا ہے حدیث
میں اعتماد کا مدار صرف ماہرینِ فن ہیں؛چنانچہ اگر کوئی
شخص صناعتِ حدیث میں مہارت نہیں رکھتا ہو، توایسے شخص پر
بلا تحقیق حسنِ ظن سے اعتماد نہیں کیا جا سکتا(۶)۔
تہاونِ حدیث پر وعید سے نا آشنائی
ان کتب میں قابلِ رَدّ مواد کی
تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ حضرات تہاونِ حدیث( یعنی
رِوایتِ حدیث میں پوری احتیاط سے کام نہ لینا
) کی وعیدوں سے واقف نہیں ہوں گے، بلاشبہ ان حضرات کی
عُلوّ شان اسی حسنِ ظن کی مقتضی ہے؛البتہ اس تہاون سے اجتناب کی
اہمیت اپنی جگہ ہے، خاص طور پر عوامی حلقوں میں اس کی
ضرورت بڑھ جاتی ہے کہ ملّت اسلامیہ کا ہر فرد یہ محسوس کر رہاہو
کہ میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی
بات ہرگز منسوب نہ کروں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو؛تاکہ مَنْ
کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً․․․․․․ کا مصداق بننے سے بچ جاوٴں،ورنہ یہی
تہاون نہ صرف غیر مستند روایات کو پھیلانے میں کام آتا
ہے؛ بلکہ اِن روایتوں کو تحفّظ بھی فراہم کرتا ہے۔
تحقیق کا فقدان
ان تالیفات میں جو احادیث
مُسنَد (سند والی روایات)تھیں،ان میں اس بات کی
ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ فن جرح و تعدیل کی روشنی
میں اس کا جائزہ لیا جائے؛تاکہ قابلِ احتراز روایتیں ظاہر
ہوجاتیں۔
ایک اہم فائدہ
اگر ہم بھی اپنے گردوپیش کا
جائزہ لیں،تو ہم دیکھتے ہیں کہ علم الروایہ(علمِ حدیث)
میں ہمارا منتہیٰ صرف سندِ حدیث پانا ہے، اس کے بعد ہم کسی
چیز کی ضرورت محسوس نہیں کرتے؛حالانکہ صاحبِ کتاب سند بیان
کر کے ایک حد تک اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتا ہے،اب اگلا
مرحلہ ہم سے متعلق ہے کہ ہم حسبِ ضرورت،متقدمین اصحاب ِتخریج اور ائمہٴ
علل کی جانب رجوع کریں،اور روایات کے قابل تحمّل(روایت لینا)
ہونے کا پورا اطمینان حاصل کریں۔
حاصل کلام
سابقہ اسبابِ تکاسل خطہٴ ہندوپاک میں
موضوعات کی اشاعت اور ان کی ترویج میں انتہائی موٴثر
رہے ہیں؛بلکہ اگر ان اسباب کے سدّ باب کے لیے اکابر کے طرز پر عملی
اِقدامات جاری رکھے جائیں تو کافی حد تک اس ساقط الاعتبار ذخیرے
کی روک تھام ہو سکتی ہے۔
من گھڑت اور ساقط الاعتبار روایات کے سدِّ باب میں علماء ہندوپاک
کی خدمات :
سابقہ اقتباسات سے ہمیں من گھڑت روایات
کی اِشاعت میں ملوث بہت سے گروہوں اور طبقات کا بخوبی علم
ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ ان کی اغراض، اَفکار، اورطریقہٴ کار بھی
وضاحت سے سامنے آگئے،لیکن واضح رہے کہ ایسا ہر گز نہیں ہوا کہ
عمائدینِ اُمت نے اس فتنے کے سدّباب کے لیے اپنی خدمات پیش
نہ کی ہو؛بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ برّ صغیرپر ایسے شب وروز
بھی آئے ہیں،جن میں صیانتِ حدیث کا تاج، علماء
برّصغیرکے سر رہا ہے؛ چنانچہ علامہ زاہدالکوثری فرماتے ہیں:
”دسویں صدی ہجری کے نصف
آخر میں جب کہ علمِ حدیث کی سر گر میاں ماند پڑ گئی
تھیں،برّ صغیر میں یہ سر گر میاں عروج پر تھیں“(۷)۔
گویا کہ یوں کہنا چاہیے
کہ اس وقت عالمِ اسلام کی سر براہی کی سعادت برِ صغیر کو
حاصل رہی ہے،بہر حال یہاں ہم اُن چند مشہور مشایخ کا مختصر
تذکرہ کریں گے،جنہوں نے زبان زَد عوام و خواص،روایات کی حقیقت
واضح کی،اور ذخیرہٴ احادیث میں تنقیح کی
خدمات انجام دیں۔
۱-امام رضی الدین
ابوالفضائل الحسن بن محمد (المتوفی ۵۷۷ھ)
آپ کی تالیف ”الدُّ
رَرُ المُلْتَقَط“ اور ”رسالة موضوعات الصَّغَانِی“ کا شمار فن ہذا کے اوّلین مصادر میں
ہوتا ہے۔مشتہرات پر مشتمل شاید ہی کوئی کتاب موصوف اقوال
سے خالی ہو۔
۲-ملک المحدّثین علامہ محمد
طاہر صدیقی پٹنی (المتوفی ۹۸۶ھ)
آپ نے اس فن میں ”تذکِرةُ
الموضوعات“
اور ”قانون الموضوعات“ لکھیں،بلاشبہ مشتہرات کا یہ
مجموعہ ایک انسا ئیکلو پیڈیا کی حیثیت
رکھتا ہے۔
۳-امام علامہ سید محمد بن
محمد حسینی زَبِیدی الشہیر بمرتضی (المتوفی ۱۲۰۵ھ)
آپ نے ”إتَّحاف
السَّادَة المُتَّقِین“ میں”إحیاء علوم الدین للغزالي“ کی احادیث پر، تخریج و
تشریح میں محدثانہ شان کا مظاہرہ کیا ہے،اہل علم کا طبقہ اس سے
مستغنی نہیں رہ سکتا۔
۴-امام عبدالعزیز بن احمد
فرہاروی (المتوفی ۱۲۳۹
ھ)
آپ نے تقریباً ۲ ہزار موضوع
اور زبان زَد عام روایتوں پر مشتمل مجموعہ تیار کیا ہے،فی
الحال یہ مخطوطہ ہے۔آپ کے بارے میں مولانا موسیٰ خان
روحانی بازی فرماتے ہیں کہ اگر میں اس بات پر قسم کھاوٴں کہ
اللہ تعالیٰ نے سرزمینِ پنجاب کو جب سے وجود بخشا ہے،ان جیسی
کسی دوسرے شخصیت نے یہاں جنم نہیں لیا،تو میں
حانث نہیں ہوں گا(۸)۔
۵-علامہ ابو الحسنات محمد عبدالحی
لکھنوی (المتوفی ۱۳۰۴
ھ)
آپ کی شخصیت اور حدیثی
خدمات، محتاج تعریف نہیں ہے،اس فن میں آپ نے ”الآثار
المرفوعة في الأخبار الموضوعة“ کے نام سے یادگار چھوڑی ہے۔
۶-حکیم الامت حضرت مولانا
اشرف علی تھانوی (المتوفی۱۲۸۰ھ/۱۳۶۲
ھ)
آپ امراضِ امت کی پہچان اور اس کے
علاج میں وَہْبی بصیرت رکھتے تھے،آپ نے مُتَدَاوَل من گھڑت،بے
اصل روایتوں کا سدّباب عملاً بھی کیا اور عوام کو بھی اس
سے اجتناب کی طرف توجہ دلائی؛چنانچہ بہشتی زیور،حصہ دہم میں
یہ عنوان قائم کیا ہے : ”بعضی کتابوں کے نام جن کے دیکھنے
سے نقصان ہوتا ہے“اس عنوان کے تحت ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
”دعا گنج العرش،عہد نامہ یہ دونوں
کتابیں اور بہت سی کتابیں ایسی ہیں کہ ان کی
دعائیں تو اچھی ہیں؛مگران میں جو سندیں لکھی
ہیں،ا ور ان میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
نام سے لمبے چوڑے ثواب لکھے ہیں،وہ بالکل گھڑی ہوئی باتیں
ہیں“(۹)۔
اسی طرح حضرت تھانوی اس بات سے بھی
بخوبی واقف تھے کہ سلوک و تصوّف کی مجالس میں ایک معتد بہ
تعداد بے اصل روایتوں کی ہیں؛چنانچہ آپ نے ”التَشَرَّفُ
بِمَعْرِفَة أحَادِیثِ التَّصَوُّف“میں ایسی بہت سی
روایات پر روایتی اور درایتی پہلوٴوں سے بحث
کی ہے،جو درجہٴ اعتبار سے ساقط ہیں۔
ایک اہم التماس
یہ مختصر اور محدود مقالہ اس کی
مزید گنجائش رکھنے سے قاصر ہے کہ ہم اکابرینِ ہندوپاک کی متعلقہ
موضوع میں تاریخی خدمات سے تفصیلی بحث کریں؛
البتہ اگر کوئی فرد علامہ عبد الحی الحَسَنی کی تصنیف”نزہة
الخواطر وبہجة المسامع والنّواظر“کوسامنے رکھ کر ان محدثینِ کرام کی
خدمات کو جمع کرے، جنہوں نے باطل اور من گھڑت روایتوں کا تعاقب کیا
ہے،تو یہ کام نہ صرف ہمارے اسلاف کے منہج کی جانب رہنمائی کرے
گا بلکہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے اُن مخطوطات کی جانب بھی
رہنمائی کرے گا جو آج دِیمک اور گرد وغبار سے تحلیل ہوتے جارہے
ہیں،بلاشبہ نت نئی تحقیقات، شروحات،تسہیلات وغیرہ
نا گزیر تالیفات ہیں؛لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ
آج جن مخطوطات کو ہم محفوظ کر سکتے ہیں، کل ان کا نام ”حَسَراتِ زمانہ“ کی
فہرست میں شامل کر دیا جائے ۔
$ $ $
حوالہ جات اور مآخذ
(۱)الجامع الصحیح للبخاري:
باب إثم من کذب علی النبيﷺ۱/۳۳، رقم الحدیث:۱۰۷،ت:محمد
زھیربن الناصر، دار طوق النجاة․ بیروت، الطبعة الأولی۱۴۲۲ھ․
(۲)اللآلي المصنوعة:ص:۳۵،
ت: محمد عبد المنعم رابح، دارالکتب العلمیة․ بیروت،الطبعة الثانیة
۱۴۲۸ھ․
(۳)الدُرَرُ الملتقظ: بحوالہ مجلّہ
”فکر ونظر“، ص:۷۶، خصوصی اشاعت، ربیع الأول شعبان ۱۴۲۶ھ،
ادارہ تحقیقات اسلامی بین الأقوامی، اِسلامي یو نیورسٹی،
اسلام آباد، پاکستان․
(۴)الآثار المرفوعة: ص: ۱۲،
دارالکتب العلمیة بیروت․
(۵)کوثر النَّبِیّ وزُلَالُ
حَوْضِہ الرَّوِي (فن معرفة الموضوعات):ص:۱۰۸، المخطوط،نَسَخَہ
العلامة عبد الله الوَلْہَارِي(۱۲۸۳ھ)․
(۶)الآثار المرفوعة: ص: ۱۹،
دارالکتب العلمیة بیروت․
( ۷)مقالات الکوثري:ص:۶۷،دار
السلام مصر، الطبعة الثانیة ۱۴۲۸ھ․
(۸)بغیة الکامل السامي في شرح
المحصول والحاصل للجامي:ص:۲۲۷،مکتبة مدینة بلاہور
باکستان، الطبعةالخامسة ۱۴۱۴ھ․
(۹)بہشتی
زیور:ص:۷۰۴،حصہ دہم،دار الإشاعت،ایم اے جناح
روڈ،ارد و بازار کراچی․
$ $ $
------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ7-8، جلد:100 ،
شوال-ذيقعده 1437 ہجری مطابق جولائی-اگست 2016ء